جو بھی لوگ عورتوں پر تشدد کرتے ہیں اور ہماری حکومت کا کہنا ہے انپر ایکشن لیا جائے گا
مملکت خدارا پاکستان کا وجود
نفاذ اسلام کے لئے عمل میں لایا گیا یہاں عورتوں پر تشدد اور ان کی بنیادی حقوق کے
تحفظ کے لئے قرآن و سنت کی روشنی میں کئی قوانین تشکیل دیے گئے ہیں ان میں عائلی قوانین
1961 کے بعد قربانی جو کہ قرآن و سنت کے مطابق ہیں ان سے حقوق نسواں کے تحفظ ہوا ہے
عورتوں پر مظالم اور ان کی حقوق غضب کرنے سے متعلق اسمبلی میں سینٹ نے ترمیمی بل بھی
منظور کیا پاکستان میں عورتوں پر تشدد کے خاتمے کیلئے حکومتی اقدامات کو ذیل میں بیان
کیا گیا ہے
پنجاب میں کم عمری کی شادی پر پابندی کی ایکٹ 2015
پاکستان میں کم عمری کی شادی
کا رواج عام ہے پنجاب میں شادی کی قانونی عمر لڑکیوں کے لئے خلفاء لڑکوں کے لئے 18
سال مقرر ہے پنجاب کے صوبائی اسمبلی نے 2015ءمیں شادی ایکٹ میں ترمیم کی ہے کہ اگر
والدین کا رجسٹری یونین کونسل کا عملہ فورا سال سے کم عمر لڑکیوں 18 سال سے کم عمر
لڑکیوں کی شادی کرواتا ہے تو ان کی قید اور بھاری جرمانے کی سزا دی جائے گی
حکومت پنجاب کا تحفظ نسواں ایکٹ 2016
خواتین کے تحفظ فراہم کرنے کے
لئے 2016 میں پنجاب حکومت پنجاب تحفظ نسواں ایکٹ کیا یہ ایکٹر ان خواتین کو انصاف امداد
مہیا کرتا ہے جو تشدد کا شکار ہوتے ہیں یہاں پر تشدد ہوتا سر خواتین کے بجائے تعاون
پر زور دے کر انصاف فراہم کرتا ہے جس سے تشدد کہار گریلو بدسلوکی جذباتی اور نفسیاتی
پے زندگی معاشی تنگی پچھتاوا کرنا اور سائبر کرائم غیرہ
خواتین کے تحفظ اور ان کو بااختیار بنانے میں حکومتی کردار
پاکستان میں خواتین تشدد کے
خلاف آواز نہیں اٹھاتی ہیں کیونکہ انہیں ناانصافی کے خلاف کوئی معاشی امداد میسر نہیں
ہوتی اس بات کو ہی ذہن میں رکھتے ہوئے صوبائی حکومت نے صوبے میں خلافت راشدہ قائم کی
ہے یہ معراج اگر صبح سے شام تک کھلے رہیں اور وہاں کا تمام خواتین پر مشتمل ہے اور
ان کو بااختیار بنانے میں حکومت نے درج ذیل اقدامات کیے ہیں
ملا فتح پر قائم انسداد تشدد
برائے خواتین میں تشدد ہے بتاؤ تم کو پولیس کروائی حامل ہے تشدد اور خواتین کے پیمان
بننے پر تحقیقات و نفسیاتی امراض مہیا کی جاتی ہے اسی طرح ان ک پناہگاہ
فراہم کی گئی ہے
اگر کسی مرکز میں انہیں کوئی
مشکل پیش آتی ہے تو وہ معاف ٹیموں سے رابطہ کر سکتے ہیں جن کے خلاف کھیلا تھا خواتین
اپنے گھر میں ہی خواتین کمیٹیوں کا حصہ ہے جو خواتین کے تشدد سے بچانے کے لیے کسی جگہ
پیدا ہو سکتی ہیں متاثرہ خواتین اگر نہیں ہو سکتی تو بھی کیلئے ٹول فری نمبر قائم کیے
گئے ہیں تاکہ وہ خط کے ذریعے معلومات اور امداد حاصل کر سکے یہ ٹال فری نمبر پہلے سے
قائم شدہ تھی نمبر 103 کے علاوہ ہے جہاں وہ تین شدت پسندوں کے خلاف شکایت کر سکتی ہیں
ہر عورت اپنے موبائل فون یا لینڈ لائن نمبر سے ہیلپ لائن کو کال کر سکتی ہیلپ لائن آپریٹر خواتین کی شکایات کے اندراج کے معلومات وغیرہ فراہم کرتے ہیں اور ان کا رابطہ بھی آپ خواتین گھر کو حکومتی حکام سے کرواتے ہیں ایس ایم ایف نمبر ٧٨٧8
پولیس سے رابطہ کیا جا سکتا ہے
پاکستان کے 1973 کے آئین کے
مطابق تمام انسانوں کو زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے تاکہ وہ معاشرے کے آزاد اور برابر
کے شہری بن سکے جب خواتین عدم مساوات اور غربت کا شکار ہیں وہ اپنا جائز مقام حاصل
نہیں کر سکتے ہیں خواتین کے جرائم کے خلاف خاموشی بے شمار مظالم کا سبب بنتی ہے پاکستان
کے شہری پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ تشدد کا شکار خواتین کی مدد کرے اور ان کے تحفظ
کے لیے حکومت سے تعاون کرے اور شہریوں کی بھی حفاظت کی جائے جو تشدد کا شکار خواتین
کے مقدمات کو متعلقہ حکام تک پہنچاتے ہیں ہم کھولا اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھا
کر ہی اپنے معاشرے کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنا سکتے ہیں ایک انصاف پر مبنی اور شالیں
ماہرہ کی امن اور محبت کا گہوارہ بن سکتا ہے