ہم آج مولانا محمد حسین آزاد کا تذکرہ کریں گے

pakistan99
0

 

 

ہم آج مولانا محمد حسین آزاد کا تذکرہ کریں گے

 

ہم آج مولانا محمد حسین آزاد کا تذکرہ کریں گے

دہلی میں پیدا ہوئے پندرہ سو پینسٹھ کی جنگ آزادی کے بعد آزاد کے والد انگریزوں کے ہاتھوں مارے گئے اور لوٹ گیا اور حیدرآباد محکمہ تعلیم میں پندرہ روپے ہوگئے پنجاب نے ان سے متعدد نصابی اور درسی کتابیں لکھوائیں انجمن پنجاب میں لیکچر اور سیکریٹری رہے آخری دنوں میں گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی فارسی کے پروفیسر مقرر کئے گئے ہیں ساٹھ میں دماغ کی مدد سے شروع ہوا جو مرتے دم تک باقی رہا


آزاد اردو کے صاحب طرز نثر نگار ہیں وہ اپنے اپنے لوگوں کے بیان کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی ان کا تسلسل اسلوب بیان اٹھے اپنے عہد کے ادیبوں اور نثر نگاروں میں منفرد بناتا ہے

تخیل آفرینی پیکر تراشی تنظیم نگاری شریعت رنگینی واقعہ نگاری کی حقیقت آرائیں اور مبالغہ آرائی ان کے اسلوب کی نمایاں خصوصیات ہیں ان کے انداز بیان کا ایک ایک دفعہ ہو صورت ودل کش شاہکار ہے جس نے ان کے بعد آنے والے ادیبوں کی اکثریت کو متاثر کیا خوبصورت اور دلکش کفر کے علاوہ ان کا ایک بڑا کارنامہ اردو میں جدید طرز شاعری ہے جس کی ابتدا انجمن پنجاب لاہور کے مشاعروں نے سے ہوئی جس کے سکریٹری تھے


آزاد کی تصنیف میں آب حیات دربار اکبر یہ نیرنگ خیال کس صرف ہند اور انجن انفارم مشہور ہیں اپنے استاد ابراہیم ذوق کا دیوان بھی آزاد نے مرتب کیا آزاد نے موضوعاتی نظمیں بھی لکھی جو نظم آزاد میں شامل ہیں

شاعروں کے لطیفے

طلباء کو بتانا کہ ہمارے شہروں کی اسے مزاح کس قدرتی ہوتی ہے اور ان کی آنکھوں میں کتنے لطیفے پہلو موجود ہوتے ہیں 1

شعر و ادب میں تنوع ظرافت کی اہمیت واضح کرنا 2

آپس کے تعلقات میں رواداری تحمل اور برداشت کی ضرورت اتفاق اجاگر کرنا 3

مختلف شاعروں کے انداز گفتگو اور طبیعتوں سے متعارف کروانا 4

کچھ زبانوں زد عام اشعار کے موقع و محل استعمال سے روشناس کروانا 5

 

ایک دن لکھنؤ میں میرا اور مرزا کے کلام پر جو شخص نے تکرار میں ٹول کھینچ r29 خواجہ باسط کے مرید تھے انہیں گئے اور عرض کی کہ دونوں صاحب کمال ہیں مگر فرق اتنا ہے کہ میر کا کلام آہ ہے مرزا صاحب کا کلام واہ ہے مثال میں میر صاحب شعر پڑھا

فرحان نے میر کے آہستہ بولو 1

ابھی ٹک روتے روتے ہو گیا ہے 2

پھر مزا کا شعر پڑھا

پودے کی جو بالیں پہ ہوا شور قیامت 3

خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے 4

ان میں سے ایک شخص جو مرزا کے طرفدار تھے وہ مرزا کے پاس بھی آئے اور سارا ماجرا بیان کیا مرزا بھی میر صاحب کے شیر کو فون کر مسکرائے اور کہا شعر تو میں رکھا ہے مگر دات ہوا ہیں ان کی دوا کی معمول ہوتی ہے

ایک دن سودا مشاعرے میں بیٹھے تھے لوگ اپنی اپنے گھر میں پڑھ رہے تھے ایک شریف کی شرح 12 برس کی عمر تھی اس نے گول پڑی مطالعہ تھا

گرمی کلام پر سودا بھی چونک پڑے پوچھا یہ مطلب کس نے پڑھا لوگوں نے کہاحضرت یہ معجزہ ہے خدا نے بھی بہت تکلیف کی دودھ مرتبہ پڑھا اور کہا کہ میں اس لڑکے جوان ہوتے نظر نہیں آتے خدا کی قدرت انہی دنوں میں لڑکا جل کر مر گیا

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)